غریب انسان پر شاعری : غربت اور مفلسی پر دو لائن شعر – غربت پر اشعار

غربت پر شاعری

مفلسی سے شاید آپ نہ گزرے ہوں لیکن انسانی سماج کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس کا احساس تو کرسکتے ہیں ۔ اگر کر سکتے ہیں تو اندازہ ہوگا کہ مفلسی کس قدر جاں سوز ہوتی ہے اور ساتھ ہی ایک مفلس آدمی کے تئیں سماج کا رویہ کیا ہوتا ہے وہ کس طرح سماجی علیحیدگی کا دکھ جھیلتا ہے۔ غریبی اور مفلسی انسانی زندگی کے دو تلخ پہلو ہیں جو صدیوں سے انسانیت کو رلا رہے ہیں۔ ان موضوعات پر شاعری بھی بہت لکھی گئی ہے، جس میں غریبوں کی مشکلات اور ان کے درد کو بیان کیا گیا ہے۔

ہمارا یہ شعری انتخاب مفلس اور مفلسی کے مسائل پر ایک تخلیقی مکالمہ ہے آپ اسے پڑھئے اور زندگی کا نیا شعور حاصل کیجئے ۔

مفلسی پر دو لائن شاعری

گھر لوٹ کے روئیں گے ماں باپ اکیلے میں
مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں
قیصر الجعفری

سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے
کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتا ہے انساں سے
امام بخش ناسخ

فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں
منور رانا

کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو
نظیر باقری

وہ اکثر دن میں بچوں کو سلا دیتی ہے اس ڈر سے
گلی میں پھر کھلونے بیچنے والا نہ آ جائے
محسن نقوی

غربت پر غمگین اور دکھی اشعار

بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے
بیدل حیدری

آج پھر ماں مجھے مارے گی بہت رونے پر
آج پھر گاؤں میں آیا ہے کھلونے والا
نواز ظفر

عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلمؔ
اپنے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے
اسلم کولسری

بچوں کی فیس ان کی کتابیں قلم دوات
میری غریب آنکھوں میں اسکول چبھ گیا
منور رانا

جب چلی ٹھنڈی ہوا بچہ ٹھٹھر کر رہ گیا
ماں نے اپنے لعل کی تختی جلا دی رات کو
سبط علی صبا

غریب انسان کی زندگی پر شعر

جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی
مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کر لی
عارف شفیق

شرم آتی ہے کہ اس شہر میں ہم ہیں کہ جہاں
نہ ملے بھیک تو لاکھوں کا گزارا ہی نہ ہو
جاں نثار اختر

بیچ سڑک اک لاش پڑی تھی اور یہ لکھا تھا
بھوک میں زہریلی روٹی بھی میٹھی لگتی ہے
بیکل اتساہی

اس کے ہاتھ میں غبارے تھے پھر بھی بچا گم صم تھا
وہ غبارے بیچ رہا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
سید سروش آصف

غم کی دنیا رہے آباد شکیلؔ
مفلسی میں کوئی جاگیر تو ہے
شکیل بدایونی

مفلس کی مفلسی بھری دنیا پر دردناک غزل

بھوکے بچوں کی تسلی کے لیے
ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک
نواز دیوبندی

غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارفؔ
امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی
عارف شفیق

اپنے بچوں کو میں باتوں میں لگا لیتا ہوں
جب بھی آواز لگاتا ہے کھلونے والا
راشد راہی

مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
ولی محمد ولی

کھلونوں کی دکانو راستا دو
مرے بچے گزرنا چاہتے ہیں
نامعلوم

کھلونوں کے لئے بچے ابھی تک جاگتے ہوں گے
تجھے اے مفلسی کوئی بہانہ ڈھونڈ لینا ہے
منور رانا

آیا ہے اک راہ نما کے استقبال کو اک بچہ
پیٹ ہے خالی آنکھ میں حسرت ہاتھوں میں گلدستہ ہے
غلام محمد قاصر

تنگ دستی کی غربت بھری زندگی پر نظم

غربت کی تیز آگ پہ اکثر پکائی بھوک
خوش حالیوں کے شہر میں کیا کچھ نہیں کیا
اقبال ساجد

ہٹو کاندھے سے آنسو پونچھ ڈالو وہ دیکھو ریل گاڑی آ رہی ہے
میں تم کو چھوڑ کر ہرگز نہ جاتا غریبی مجھ کو لے کر جا رہی ہے
نامعلوم

میں اوجھل ہو گئی ماں کی نظر سے
گلی میں جب کوئی بارات آئی
نامعلوم

مفلسوں کی زندگی کا ذکر کیا
مفلسی کی موت بھی اچھی نہیں
ریاضؔ خیرآبادی

جرأت شوق تو کیا کچھ نہیں کہتی لیکن
پاؤں پھیلانے نہیں دیتی ہے چادر مجھ کو
بسمل عظیم آبادی

اپنی غربت کی کہانی ہم سنائیں کس طرح
رات پھر بچہ ہمارا روتے روتے سو گیا
عبرت مچھلی شہری

غریب کی بھوک اور خالی پیٹ پر اردو ادب

شاعروں نے اپنی شاعری میں غریبوں کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے غریبوں کی غربت اور محرومیوں کو بیان کیا ہے، اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر بھی آواز اٹھائی ہے۔ غریبی اور مفلسی پر شاعری کی کچھ مشہور کتابوں کے نام درج ذیل ہیں:

  • غریبوں کی شاعری (مرتب: احمد ہمیش)
  • مفلسی کی شاعری (مرتب: سجاد ظہیر)
  • غریب آدمی کی شاعری (مرتب: عبداللہ حسین)

غربت کی ماری عوام کی لٹریچر میں وقعت

ان کتابوں میں غریبی اور مفلسی پر مختلف شاعروں کی شاعری شامل ہے۔ یہ شاعری غریبوں کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے، اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر بھی آواز اٹھاتی ہے۔ غریبوں کی زندگی مشکلات اور محرومیوں سے بھری ہوتی ہے۔ ان کے پاس اکثر بنیادی ضروریات زندگی تک رسائی نہیں ہوتی ہے۔ وہ غربت اور بھوک کی وجہ سے ہمیشہ پریشان رہتے ہیں۔ ان کے بچے اکثر تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔

غریبوں کو معاشرے میں بھی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں اکثر حقارت اور امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ ناانصافیاں بھی ہوتی ہیں۔

شاعری غریبوں کی آواز بن سکتی ہے۔ یہ غریبوں کی مشکلات اور محرومیوں کو اجاگر کر سکتی ہے، اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر آواز اٹھا سکتی ہے۔ شاعری غریبوں کو امید اور حوصلہ بھی دے سکتی ہے۔ یہ انہیں بتا سکتی ہے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں، اور ان کے ساتھ بھی ہمدردی کرنے والے لوگ موجود ہیں۔

نتیجہ

غریبی اور مفلسی ایک سنگین مسئلہ ہے جس کا حل تلاش کرنا ضروری ہے۔ شاعری اس مسئلے کو اجاگر کرنے اور اس کے حل کے لیے لوگوں کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔