شراب پر ٹک ٹاک اردو شاعری – بوتل اور میخانے پر بہترین شعر

شراب پر بہترین اشعار

اگر آپ کو بس یوں ہی بیٹھے بیٹھے ذرا سا جھومنا ہے تو شراب شاعری پر ہمارا یہ انتخاب پڑھئے ۔ آپ محسوس کریں گے کہ شراب کی لذت اور اس کے سرور کی ذرا سی مقدار اس شاعری میں بھی اتر آئی ہے ۔ یہ شاعری آپ کو مزہ تو دے گی ہی ،ساتھ میں حیران بھی کرے گی کہ شراب جو بظاہر بے خودی اور سرور بخشتی ہے، شاعری میں کس طرح معنی کی ایک لامحدود کائنات کا استعارہ بن گئی ہے

شراب پر عمدہ شعر و شاعری

تمہاری آنکھوں کی توہین ہے ذرا سوچو
تمہارا چاہنے والا شراب پیتا ہے
منور رانا

آئے تھے ہنستے کھیلتے مے خانے میں فراقؔ
جب پی چکے شراب تو سنجیدہ ہو گئے
فراق گورکھپوری

کچھ بھی بچا نہ کہنے کو ہر بات ہو گئی
آؤ کہیں شراب پئیں رات ہو گئی
ندا فاضلی

اب تو اتنی بھی میسر نہیں مے خانے میں
جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں
دواکر راہی

زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ بتا دے جہاں پر خدا نہ ہو
نامعلوم

بے پئے ہی شراب سے نفرت
یہ جہالت نہیں تو پھر کیا ہے
ساحر لدھیانوی

اتنی پی جائے کہ مٹ جائے میں اور تو کی تمیز
یعنی یہ ہوش کی دیوار گرا دی جائے
فرحت شہزاد

زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا
شیخ ابراہیم ذوقؔ

شب جو ہم سے ہوا معاف کرو
نہیں پی تھی بہک گئے ہوں گے
جون ایلیا

غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
احمد فراز

شرابی بوتل پر غزل

شراب کے بارے میں ادبی نظریہ ایک پیچیدہ اور متنوع موضوع ہے، جس میں مختلف ثقافتوں اور ادوار سے مختلف نقطہ نظر شامل ہیں۔ کچھ ادیبوں نے شراب کو خوشی اور نشے کا ذریعہ سمجھا ہے، جبکہ دوسروں نے اسے غم اور تباہی کی علامت کے طور پر دیکھا ہے۔
شراب کے بارے میں مثبت ادبی نظریات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو لوگوں کو ایک ساتھ لا سکتی ہے۔ شراب نوشی اکثر سماجی سرگرمیوں سے وابستہ ہوتی ہے، جیسے پارٹیاں، شادیوں اور دیگر تقریبات۔ شراب لوگوں کو آرام کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ یہ تخلیقی صلاحیتوں کو بھی بڑھا سکتی ہے

میخانے پر زبردست اشعار

بارش شراب عرش ہے یہ سوچ کر عدمؔ
بارش کے سب حروف کو الٹا کے پی گیا
عبد الحمید عدم

آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
فیض احمد فیض

شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کر لی
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
جلالؔ لکھنوی

ساقی مجھے شراب کی تہمت نہیں پسند
مجھ کو تری نگاہ کا الزام چاہیئے
عبد الحمید عدم

پیتا ہوں جتنی اتنی ہی بڑھتی ہے تشنگی
ساقی نے جیسے پیاس ملا دی شراب میں
نامعلوم

لطف مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں
داغؔ دہلوی

ترک مے ہی سمجھ اسے ناصح
اتنی پی ہے کہ پی نہیں جاتی
شکیل بدایونی

پہلے شراب زیست تھی اب زیست ہے شراب
کوئی پلا رہا ہے پئے جا رہا ہوں میں
جگر مراد آبادی

ہم انتظار کریں ہم کو اتنی تاب نہیں
پلا دو تم ہمیں پانی اگر شراب نہیں
نوح ناروی

میکدے اور جام پر نظم

شراب کے بارے میں ایک اور مثبت نظریہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو لوگوں کو اپنے مسائل سے بچنے میں مدد کر سکتی ہے۔ شراب لوگوں کو اپنے غموں اور پریشانیوں کو بھولنے میں مدد کر سکتی ہے۔ یہ انہیں ایک عارضی طور پر خوشی اور سکون کا احساس بھی دے سکتی ہے تاہم، شراب کے بارے میں منفی ادبی نظریات بھی موجود ہیں۔ ایک منفی نظریہ یہ ہے کہ شراب ایک نشہ آور چیز ہے جو لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کر سکتی ہے۔ شراب نوشی سے صحت کے مسائل، تعلقات میں مشکلات اور مالی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

اے ذوقؔ دیکھ دختر رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
شیخ ابراہیم ذوقؔ

شکن نہ ڈال جبیں پر شراب دیتے ہوئے
یہ مسکراتی ہوئی چیز مسکرا کے پلا
عبد الحمید عدم

غالبؔ چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روز ابر و شب ماہ تاب میں
مرزا غالب

وہ ملے بھی تو اک جھجھک سی رہی
کاش تھوڑی سی ہم پئے ہوتے
عبد الحمید عدم

کدھر سے برق چمکتی ہے دیکھیں اے واعظ
میں اپنا جام اٹھاتا ہوں تو کتاب اٹھا
جگر مراد آبادی

مرے اشک بھی ہیں اس میں یہ شراب ابل نہ جائے
مرا جام چھونے والے ترا ہاتھ جل نہ جائے
انور مرزاپوری

آخر گل اپنی صرف در مے کدہ ہوئی
پہنچے وہاں ہی خاک جہاں کا خمیر ہو
مرزا جواں بخت جہاں دار

شراب کے نشے پر خوبصورت اردو شعر


شراب کے بارے میں ایک اور منفی نظریہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو لوگوں کو اپنے اعمال پر قابو کھونے کا سبب بن سکتی ہے۔ شراب نوشی کے زیر اثر لوگ ایسے کام کر سکتے ہیں جن کا انہیں بعد میں پچھتاوا ہوتا ہے۔
ادبی تحریروں میں شراب کے بارے میں مختلف نقطہ نظر کو مختلف طریقوں سے پیش کیا گیا ہے۔ کچھ تحریروں میں، شراب کو ایک مثبت کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جبکہ دوسروں میں اسے ایک منفی کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر صدیقی

خشک باتوں میں کہاں ہے شیخ کیف زندگی
وہ تو پی کر ہی ملے گا جو مزا پینے میں ہے
عرش ملسیانی

سب کو مارا جگرؔ کے شعروں نے
اور جگرؔ کو شراب نے مارا
جگر مراد آبادی

کسی کی بزم کے حالات نے سمجھا دیا مجھ کو
کہ جب ساقی نہیں اپنا تو مے اپنی نہ جام اپنا
محشر عنایتی

اچھی پی لی خراب پی لی
جیسی پائی شراب پی لی
ریاضؔ خیرآبادی

واعظ بڑا مزا ہو اگر یوں عذاب ہو
دوزخ میں پاؤں ہاتھ میں جام شراب ہو
داغؔ دہلوی

پوچھئے مے کشوں سے لطف شراب
یہ مزا پاکباز کیا جانیں
داغؔ دہلوی

پی شوق سے واعظ ارے کیا بات ہے ڈر کی
دوزخ ترے قبضے میں ہے جنت ترے گھر کی
شکیل بدایونی

گرچہ اہل شراب ہیں ہم لوگ
یہ نہ سمجھو خراب ہیں ہم لوگ
جگر مراد آبادی

نشیلی شرابی کیفیت کی اردو ادب میں اہمیت

حافظ شیرازی کی شاعری، جس میں شراب کو اکثر خوشی اور نشے کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
عمر خیام کی رباعیات، جس میں شراب کو زندگی کی عارضی خوشیوں کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
اے جے کروسان کا ناول دی گریٹ گیٹسبی، جس میں شراب کو امریکی اعلیٰ طبقے کی فاسد زندگی کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
شراب کے بارے میں ادبی نظریہ ایک وسیع اور متنوع موضوع ہے، جس میں مختلف ثقافتوں اور ادوار سے مختلف نقطہ نظر شامل ہیں۔ شراب کے بارے میں کوئی ایک درست یا غلط نظریہ نہیں ہے، اور یہ ہر فرد پر منحصر ہے کہ وہ اس کے بارے میں اپنی رائے قائم کرے۔

اذاں ہو رہی ہے پلا جلد ساقی
عبادت کریں آج مخمور ہو کر
نامعلوم

بے پیے شیخ فرشتہ تھا مگر
پی کے انسان ہوا جاتا ہے
شکیل بدایونی

شرکت گناہ میں بھی رہے کچھ ثواب کی
توبہ کے ساتھ توڑیئے بوتل شراب کی
ظہیرؔ دہلوی

مدہوش ہی رہا میں جہان خراب میں
گوندھی گئی تھی کیا مری مٹی شراب میں
مضطر خیرآبادی

زبان ہوش سے یہ کفر سرزد ہو نہیں سکتا
میں کیسے بن پئے لے لوں خدا کا نام اے ساقی
عبد الحمید عدم

اے محتسب نہ پھینک مرے محتسب نہ پھینک
ظالم شراب ہے ارے ظالم شراب ہے
جگر مراد آبادی

میں شرابی ہوں (اردو ادب)

کھلی فضا میں اگر لڑکھڑا کے چل نہ سکیں
تو زہر پینا ہے بہتر شراب پینے سے
شہزاد احمد

فریب ساقئ محفل نہ پوچھئے مجروحؔ
شراب ایک ہے بدلے ہوئے ہیں پیمانے
مجروح سلطانپوری

جام لے کر مجھ سے وہ کہتا ہے اپنے منہ کو پھیر
رو بہ رو یوں تیرے مے پینے سے شرماتے ہیں ہم
غمگین دہلوی

مری شراب کی توبہ پہ جا نہ اے واعظ
نشے کی بات نہیں اعتبار کے قابل
حفیظ جونپوری

منہ میں واعظ کے بھی بھر آتا ہے پانی اکثر
جب کبھی تذکرۂ جام شراب آتا ہے
بیخود دہلوی

پی کر دو گھونٹ دیکھ زاہد
کیا تجھ سے کہوں شراب کیا ہے
حفیظ جونپوری

واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی
مرزا غالب

شراب بند ہو ساقی کے بس کی بات نہیں
تمام شہر ہے دو چار دس کی بات نہیں
اسد ملتانی

کسی طرح تو گھٹے دل کی بے قراری بھی
چلو وہ چشم نہیں کم سے کم شراب تو ہو
آفتاب حسین

مدت سے آرزو ہے خدا وہ گھڑی کرے
ہم تم پئیں جو مل کے کہیں ایک جا شراب
شیخ ظہور الدین حاتم

عدمؔ روز اجل جب قسمتیں تقسیم ہوتی تھیں
مقدر کی جگہ میں ساغر و مینا اٹھا لایا
عبد الحمید عدم

اٹھا صراحی یہ شیشہ وہ جام لے ساقی
پھر اس کے بعد خدا کا بھی نام لے ساقی
کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر

ترا شباب رہے ہم رہیں شراب رہے
یہ دور عیش کا تا دور آفتاب رہے
جلیل مانک پوری

پلا مے آشکارا ہم کو کس کی ساقیا چوری
خدا سے جب نہیں چوری تو پھر بندے سے کیا چوری
شیخ ابراہیم ذوقؔ

واعظ مے طہور جو پینا ہے خلد میں
عادت ابھی سے ڈال رہا ہوں شراب کی
جلیل مانک پوری

شراب کی حالت اور پاکستانی شعراء کے الفاظ

مجھ تک اس محفل میں پھر جام شراب آنے کو ہے
عمر رفتہ پلٹی آتی ہے شباب آنے کو ہے
فانی بدایونی

واعظ کی آنکھیں کھل گئیں پیتے ہی ساقیا
یہ جام مے تھا یا کوئی دریائے نور تھا
یگانہ چنگیزی

گناہ کر کے بھی ہم رند پاک صاف رہے
شراب پی تو ندامت نے آب آب کیا
جلیل مانک پوری

درد سر ہے خمار سے مجھ کو
جلد لے کر شراب آ ساقی
تاباں عبد الحی

زاہد کو رٹ لگی ہے شراب طہور کی
آیا ہے میکدے میں تو سوجھی ہے دور کی
حفیظ جونپوری

کیا جانے شیخ قدر ہماری شراب کی
ہر گھونٹ میں پڑی ہوئی رحمت خدا کی ہے
جلیل مانک پوری

ساقی مجھے خمار ستائے ہے لا شراب
مرتا ہوں تشنگی سے اے ظالم پلا شراب
شیخ ظہور الدین حاتم

مے خانہ اور مے کدہ اردو میں

مجھے توبہ کا پورا اجر ملتا ہے اسی ساعت
کوئی زہرہ جبیں پینے پہ جب مجبور کرتا ہے
عبد الحمید عدم

ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
مرزا غالب

آرزوؔ جام لو جھجک کیسی
پی لو اور دہشت گناہ گئی
آرزو لکھنوی

پیتا نہیں شراب کبھی بے وضو کئے
قالب میں میرے روح کسی پارسا کی ہے
نامعلوم

جان میری مے و ساغر میں پڑی رہتی ہے
میں نکل کر بھی نکلتا نہیں مے خانے سے
جلیل مانک پوری

پی جس قدر ملے شب مہتاب میں شراب
اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے
مرزا غالب

کس کی ہولی جشن نو روزی ہے آج
سرخ مے سے ساقیا دستار رنگ
امام بخش ناسخ

یہ تھوڑی تھوڑی مے نہ دے کلائی موڑ موڑ کر
بھلا ہو تیرا ساقیا پلا دے خم نچوڑ کر
بہادر سنگھ کام بدایونی

خالی سہی بلا سے تسلی تو دل کو ہو
رہنے دو سامنے مرے ساغر شراب کا
منشی امیر اللہ تسلیم

کیہ ہٹتا نہیں پہلو سے یہ کیا ہے بیخودؔ
کوئی بوتل تو نہیں تم نے چھپا رکھی ہے
بیخود دہلوی

رندوں کے ہاتھ سے نہیں ٹوٹی یہ ساقیا
نشے میں چور ہو گئی بوتل شراب کی
جلیل مانک پوری

ساقی کے بارے میں شاعری

کب پلاوے گا تو اے ساقی مجھے جام شراب
جاں بلب ہوں آرزو میں مے کی پیمانے کی طرح
تاباں عبد الحی

مے کشی میں رکھتے ہیں ہم مشرب درد شراب
جام مے چلتا جہاں دیکھا وہاں پر جم گئے
حسرتؔ عظیم آبادی

تمام انجمن وعظ ہو گئی برہم
لئے ہوئے کوئی یوں ساغر شراب آیا
عزیز لکھنوی

رندوں کو وعظ پند نہ کر فصل گل میں شیخ
ایسا نہ ہو شراب اڑے خانقاہ میں
حبیب موسوی

کسی کے ہاتھ میں جام شراب آیا ہے
کہ ماہتاب تہ آفتاب آیا ہے
غلام ربانی تاباں

مانیں جو میری بات مریدان بے ریا
دیں شیخ کو کفن تو ڈبو کر شراب میں
مرزا مائل دہلوی

مے نہ ہو بو ہی سہی کچھ تو ہو رندوں کے لئے
اسی حیلہ سے بجھے گی ہوس جام شراب
حکیم محمد اجمل خاں شیدا

علامہ اقبال کا ساقی نامہ

ہماری کشتیٔ توبہ کا یہ ہوا انجام
بہار آتے ہی غرق شراب ہو کے رہی
جلیل مانک پوری

چھٹے غبار نظر بام طور آ جائے
پیو شراب کہ چہرے پہ نور آ جائے
غلام ربانی تاباں

مے پی جو چاہے آتش دوزخ سے تو نجات
جلتا نہیں وہ عضو جو تر ہو شراب میں
قائم چاندپوری

شباب درد مری زندگی کی صبح سہی
پیوں شراب یہاں تک کہ شام ہو جائے
اختر انصاری

تلخی تمہارے وعظ میں ہے واعظو مگر
دیکھو تو کس مزے کی ہے تلخی شراب میں
مرزا مائل دہلوی

شراب پیتے ہیں تو جاگتے ہیں ساری رات
مدام عابد شب زندہ دار ہم بھی ہیں
آغا اکبرآبادی

جناب شیخ کو سوجھے نہ پھر حرام و حلال
ابھی پئیں جو ملے مفت کی شراب کہیں
لالہ مادھو رام جوہر

تا مرگ مجھ سے ترک نہ ہوگی کبھی نماز
پر نشۂ شراب نے مجبور کر دیا
آغا اکبرآبادی

سرچشمۂ بقا سے ہرگز نہ آب لاؤ
حضرت خضر کہیں سے جا کر شراب لاؤ
نظیر اکبرآبادی

شیشے کھلے نہیں ابھی ساغر چلے نہیں
اڑنے لگی پری کی طرح بو شراب کی
عزیز حیدرآبادی

شکریہ اے گردش جام شراب
میں بھری محفل میں تنہا ہو گیا
سلام ؔمچھلی شہری

بجا کہ ہے پاس حشر ہم کو کریں گے پاس شباب پہلے
حساب ہوتا رہے گا یا رب ہمیں منگا دے شراب پہلے
اختر شیرانی

مشکل ہے امتیاز عذاب و ثواب میں
پیتا ہوں میں شراب ملا کر گلاب میں
عزیز حیدرآبادی

شراب کے انسانی زندگی پر بہت سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ اثرات جسمانی، ذہنی، سماجی اور معاشی ہو سکتے ہیں۔

جسمانی اثرات

شراب کا استعمال جسم کے مختلف اعضاء اور نظاموں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ اثرات درج ذیل ہیں:

جگر کو نقصان: شراب جگر کو نقصان پہنچانے والی سب سے عام وجہ ہے۔ یہ جگر کی سوزش، جگر کی خرابی اور جگر کے کینسر کا باعث بن سکتی ہے۔
دماغ کو نقصان: شراب دماغ کو نقصان پہنچاتی ہے اور یادداشت، توجہ اور فیصلہ سازی کی صلاحیت کو کم کر سکتی ہے۔ یہ دماغ کی خرابی اور الزیمر کی بیماری کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
دل کو نقصان: شراب دل کو نقصان پہنچاتی ہے اور دل کی بیماری، ہائی بلڈ پریشر اور فالج کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔
کینسر کا خطرہ: شراب کینسر کا خطرہ بڑھا دیتی ہے، جس میں منہ، حلق، گلے، مری، معدے، آنتوں، پستان اور جگر کے کینسر شامل ہیں۔
حمل کے دوران نقصانات: شراب کا استعمال حاملہ خواتین اور ان کے بچوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ یہ پیدائشی نقائص، قبل از وقت پیدائش اور کم وزن پیدائش کا باعث بن سکتی ہے۔

ذہنی اثرات

شراب کا استعمال ذہنی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ اثرات درج ذیل ہیں:

نشے کی لت: شراب نشے کی لت کا باعث بن سکتی ہے، جس سے انسان اس کے استعمال پر قابو نہیں رکھ سکتا۔
اضطراب اور ڈپریشن: شراب اضطراب اور ڈپریشن کا باعث بن سکتی ہے یا ان علامات کو بڑھا سکتی ہے۔
خودکشی کا خطرہ: شراب خودکشی کے خطرے کو بڑھا دیتی ہے۔

سماجی اثرات

شراب کا استعمال سماجی تعلقات کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ اثرات درج ذیل ہیں:

خاندانی تنازعات: شراب خاندانی تنازعات اور طلاق کا باعث بن سکتی ہے۔
گھریلو تشدد: شراب گھریلو تشدد کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔
جرائم: شراب جرائم کا خطرہ بڑھا دیتی ہے، جس میں تشدد، ڈرائیونگ کے دوران نشے میں گاڑی چلانا اور املاک کو نقصان پہنچانا شامل ہے۔
معاشی اثرات

شراب کا استعمال معیشت کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ اثرات درج ذیل ہیں:

پیداواری صلاحیت میں کمی: شراب کی وجہ سے کارکنوں کی پیداواری صلاحیت کم ہو جاتی ہے اور کام سے غیبت بڑھ جاتی ہے۔
طبی اخراجات میں اضافہ: شراب کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں کے علاج کے لیے طبی اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔
حادثات اور اموات کی وجہ سے معاشی نقصان: شراب کی وجہ سے ہونے والے حادثات اور اموات سے معیشت کو بڑا نقصان ہوتا ہے۔

شراب کے استعمال سے بچاؤ کے طریقے

شراب کے استعمال سے بچنے کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں:

شراب نوشی کے مواقع سے گریز کریں۔
اپنے دوستوں اور خاندان سے شراب نوشی نہ کرنے کی درخواست کریں۔
شراب نوشی کے مضمرات کے بارے میں خود کو تعلیم دیں۔
اگر آپ کو شراب کی لت ہے تو مدد حاصل کریں۔

نتیجہ

شراب کے انسانی زندگی پر بہت سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ شراب نوشی سے بچنے کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔