علم یعنی ایجوکیشن کو موضوع بنانے والےجن شعروں کا انتخاب یہاں پیش کیا جارہا ہے اس سے زندگی میں علم کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ ہوتا ہے۔اس کے علاوہ کچھ ایسے پہلو بھی ان شعروں میں موجود ہیں جو علم کے موضوع کے سیاق میں بالکل نئے اوراچھوتے ہیں ۔ علم کے ذریعے پیدا ہونے والی منفیت پر عموما کم غور کیا جاتا ۔ یہ شاعری علم کے ڈسکورس کو ایک نئے ڈھنگ سے دیکھتی ہے اور ترتیب دیتی ہے۔ اردو شاعری میں تعلیم کی اہمیت ہمیشہ سے مسلم رہی ہے۔ اردو کے مشہور شاعر علامہ اقبال نے تعلیم کو انسان کی زندگی میں روشنی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تعلیم سے انسان کو اپنی اور اپنے اردگرد کی دنیا کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ تعلیم انسان کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتی ہے۔
تعلیم کی اہمیت پر دو لائن شعر و شاعری
یہ علم کا سودا یہ رسالے یہ کتابیں
اک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لیے ہیں
جاں نثار اختر
علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں
علامہ اقبال
علم کی ابتدا ہے ہنگامہ
علم کی انتہا ہے خاموشی
فردوس گیاوی
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
علامہ اقبال
حد سے بڑھے جو علم تو ہے جہل دوستو
سب کچھ جو جانتے ہیں وہ کچھ جانتے نہیں
خمار بارہ بنکوی
لفظ و منظر میں معانی کو ٹٹولا نہ کرو
ہوش والے ہو تو ہر بات کو سمجھا نہ کرو
محمود ایاز
علم اور درس و تدریس پر بہترین اشعار
یہی جانا کہ کچھ نہ جانا ہائے
سو بھی اک عمر میں ہوا معلوم
میر تقی میر
عقل کہتی ہے دوبارہ آزمانا جہل ہے
دل یہ کہتا ہے فریب دوست کھاتے جائیے
ماہر القادری
تھوڑی سی عقل لائے تھے ہم بھی مگر عدمؔ
دنیا کے حادثات نے دیوانہ کر دیا
عبد الحمید عدم
ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا
وہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں
چکبست برج نرائن
آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا
شیخ ابراہیم ذوقؔ
ابتدا یہ تھی کہ میں تھا اور دعویٰ علم کا
انتہا یہ ہے کہ اس دعوے پہ شرمایا بہت
جگن ناتھ آزاد
استاد کی عظمت پر غزل
عقل میں جو گھر گیا لا انتہا کیوں کر ہوا
جو سما میں آ گیا پھر وہ خدا کیوں کر ہوا
اکبر الہ آبادی
مرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا
مرے بزرگ مگر تختیاں بناتے تھے
لیاقت جعفری
جنوں کو ہوش کہاں اہتمام غارت کا
فساد جو بھی جہاں میں ہوا خرد سے ہوا
اقبال عظیم
وہ کھڑا ہے ایک باب علم کی دہلیز پر
میں یہ کہتا ہوں اسے اس خوف میں داخل نہ ہو
منیر نیازی
جان کا صرفہ ہو تو ہو لیکن
صرف کرنے سے علم بڑھتا ہے
عبد العزیز خالد
اجالا علم کا پھیلا تو ہے چاروں طرف یارو
بصیرت آدمی کی کچھ مگر کم ہوتی جاتی ہے
صدا انبالوی
اساتذہ اور تعلیم و تربیت سے متعلق اردو شاعری
اساتذہ کا براہ راست تعلق تعلیم و تربیت دونوں کے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری میں جہاں تعلیم یعنی ایجوکیشن کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے وہیں اساتذہ کے تقدس پر بھی باکمال اشعرا کہے گئے ہیں۔ کئی شعراء نے تو اپنے کلام کی اشاعت ہی اپنے استادوں کے نام کی ہے۔ اردو کے ایک اور مشہور شاعر غالب نے تعلیم کو انسان کی زندگی کی بنیاد قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تعلیم کے بغیر انسان کی زندگی ادھوری ہے۔ تعلیم انسان کو زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے ضروری ہنر اور علم فراہم کرتی ہے۔
اردو کی مشہور شاعرہ پروین شاکر نے تعلیم کو عورتوں کی ترقی کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تعلیم سے عورتوں کو اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہی ملتی ہے۔ تعلیم عورتوں کو معاشرے میں ایک باوقار مقام دلانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اردو شاعری میں تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے بہت سے شاعروں نے اپنی شاعری میں تعلیم کے موضوع کو برتا ہے۔ ان شاعروں میں علامہ اقبال، غالب، پروین شاکر، احمد فراز، فیض احمد فیض، اور دیگر شامل ہیں۔ درج بالا اشعار میں اساتذہ کے تعلیمی تربیت پر بہترین اشعار کا کلیکشن شیئر کیا گیا ہے۔
طالب علموں / طلباء کے لیے شاعری
طالب علموں کے متعلق مختلف شعراء نے نت نئے اشعار تخلیق کیے ہیں۔ یہ وہ موضوع ہے جسے خود طلباء و طالبات بھی پسند کرتے ہیں۔ اردو ادب میں تعلیم کے موضوع پر بہت سی مشہور کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ ان کتابوں میں علامہ اقبال کی “ارمغان حجاز”، غالب کی “دیوان غالب”، پروین شاکر کی “صد برگ”، احمد فراز کی “نابینا”، اور فیض احمد فیض کی “دست صبا” شامل ہیں۔ ان کتابوں میں شاعروں نے تعلیم کی اہمیت کو مختلف پہلوؤں سے اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے تعلیم کے ذریعے حاصل ہونے والے فوائد اور تعلیم کی کمی سے ہونے والے نقصانات کو بیان کیا ہے۔ انہوں نے تعلیم کو انسان کی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرنے والا عنصر قرار دیا ہے۔