اداس شام کے خاموش ڈوبتے سورج پر شاعری : تنہا شام پر عمدہ اشعار

شام پر خوبصورت شاعری

شام بہت متنوع ہے ۔ اس کا صحیح اندازہ آپ ہمارے اس انتخاب سے لگا سکیں گے کہ جس شام کو ہم اپنی عام زندگی میں صرف دن کے ایک آخری حصے کے طور دیکھتے ہیں وہ کس طور پر معنی اور تصورات کی کثرت کو جنم دیتی ہے ۔ یہ دن کے عروج کے بعد زوال کا استعارہ بھی ہے اور اس کے برعکس سکون ،عافیت اور سلامتی کی علامت بھی ۔ اور بھی کئی دلچسپ پہلو اس سے وابستہ ہیں ۔

پاکستان اور بھارت کے مشہور اردو شعراء نے شام کی اداسی اور تنہائی کو خوبصورت انداز میں اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ اکثر انسان زندگی کے معمولات سے بور ہو کر اور اکتاہٹ کے مارے دن کی تھکان سے چور کہیں تنہائی میں خاموشی کی تشکیل کا منتظر ہوتا ہے۔ ایسے میں انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی اس کے قریب نہ جائے اور وہ کسی محفل کا حصہ نہ بنے۔ شام کا ڈھلتا سورج قدرت کے دلکش مناظر کی رونمائی میں سے ایک خوشنما منظر ہے۔ آئیے اسی مناسبت سے اشعار پڑھتے ہیں۔

تنہا شام پر عمدہ دو لائن شاعری

تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے
میں ایک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے
قیصر الجعفری

شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں
فراق گورکھپوری

شام تک صبح کی نظروں سے اتر جاتے ہیں
اتنے سمجھوتوں پہ جیتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
وسیم بریلوی

یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
شکیل بدایونی

وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اس شام بھی
انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر کرتے رہے
پروین شاکر

اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
شعیب بن عزیز

خوبصورت خاموش شام پہ بہترین اشعار

وہ کون تھا جو دن کے اجالے میں کھو گیا
یہ چاند کس کو ڈھونڈنے نکلا ہے شام سے
عادل منصوری

تم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہو آزاد
شام ہونے کو ہے اب گھر کی طرف لوٹ چلو
عرفان صدیقی

بس ایک شام کا ہر شام انتظار رہا
مگر وہ شام کسی شام بھی نہیں آئی
اجمل سراج

کبھی تو آسماں سے چاند اترے جام ہو جائے
تمہارے نام کی اک خوبصورت شام ہو جائے
بشیر بدر

نہ اداس ہو نہ ملال کر کسی بات کا نہ خیال کر
کئی سال بعد ملے ہیں ہم تیرے نام آج کی شام ہے
بشیر بدر

دوستوں سے ملاقات کی شام ہے
یہ سزا کاٹ کر اپنے گھر جاؤں گا
مظہر امام

اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا
منیر نیازی

ڈھلتے سورج کے حسین منظر پر اداس شاعری

شام ہوتے ہی کھلی سڑکوں کی یاد آتی ہے
سوچتا روز ہوں میں گھر سے نہیں نکلوں گا
شہریار

یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے
تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتا تھا کاجل
ناصر کاظمی

نئی صبح پر نظر ہے مگر آہ یہ بھی ڈر ہے
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے
شکیل بدایونی

اب تو چپ چاپ شام آتی ہے
پہلے چڑیوں کے شور ہوتے تھے
محمد علوی

کبھی تو شام ڈھلے اپنے گھر گئے ہوتے
کسی کی آنکھ میں رہ کر سنور گئے ہوتے
بشیر بدر

غروب ِ آفتاب پر غزل

شام سے پہلے تری شام نہ ہونے دوں گا
زندگی میں تجھے ناکام نہ ہونے دوں گا
صابر ظفر

میں تمام دن کا تھکا ہوا تو تمام شب کا جگا ہوا
ذرا ٹھہر جا اسی موڑ پر تیرے ساتھ شام گزار لوں
بشیر بدر

گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
افتخار عارف

ڈھلے گی شام جہاں کچھ نظر نہ آئے گا
پھر اس کے بعد بہت یاد گھر کی آئے گی
راجیندر منچندا بانی

کون سی بات نئی اے دل ناکام ہوئی
شام سے صبح ہوئی صبح سے پھر شام ہوئی
شاد عظیم آبادی

غروب ِ آفتاب پر غزل

غالب، میر تقی میر، محسن نقوی، احمد فراز، عباس تابش، رفیع رضا، ذیشان ساجد، تصیر ترابی سمیت کئی بہترین شعراء نے ڈھلتی شام کے سورج کے موضوع کی خوبصورت منظرکشی کرتے ہوئے حسین و جمیل اشعار کہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری موضوعاتی اعتبار سے کافی ضخیم ہے۔ جب انسان تنہائیوں کا شکار ہوتا ہے اور شام کی دہلیز پر قدم رکھ کر دن بھر کے شور شرابے کی تمام تھکان کا بوجھ اتارنا چاہتا ہے تو اسے ان اشعار کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ اشعار انسان کے ذہنی کیتھارسس کے ساتھ ساتھ اسے تسکین پہنچاتے ہیں۔ شام کے موضوع پر مبنی اس شاعری کو آپ کاپی پیسٹ کر کے دوستوں کے ساتھ شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے واٹس ایپ، ٹک ٹاک، یوٹیوب اور فیس بک سٹیٹس پر بھی لگا کر لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔