خزاں اور پت جھڑ کے موسم پر خوبصورت شاعری : زرد پتوں کے موسم پر اشعار

خزاں پہ خوبصورت اشعار

خزاں شاعری میں صرف ایک لفظ ہی نہیں جسے ایک موسم کے بیان کیلئے استعمال کیا جاتا ہو بلکہ زندگی کی تمام تر منفی صورتوں کا ایک استعارہ ہے ۔ یہ عاشق کے موسم ہجر کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے اور سماجی ، سیاسی و تہذیبی سطح پر پھیلے ہوئے تاریک سایوں کے اظہاریے کے طور پر بھی ۔ اس لفظ کے حوالے سے یہ چند اشارے ہم نے دئے ہیں باقی آپ تلاش کیجئے ۔ ہمارا یہ انتخاب حاضر ہے

خزاں کا موسم، پت جھڑ کا موسم، اپنی ایک الگ ہی شان اور رعنائی رکھتا ہے۔ اس موسم میں درختوں سے پتے جھڑنے لگتے ہیں اور زمین پر ایک رنگین قالین بچھ جاتا ہے۔ اس موسم کی خوبصورتی نے اردو شعراء کو بھی متاثر کیا ہے اور انہوں نے خزاں پر بہت عمدہ شاعری کی ہے۔

خزاں کے موسم پر بہترین دو لائن شاعری

مری زندگی پہ نہ مسکرا مجھے زندگی کا الم نہیں
جسے تیرے غم سے ہو واسطہ وہ خزاں بہار سے کم نہیں
شکیل بدایونی

افسردگی بھی حسن ہے تابندگی بھی حسن
ہم کو خزاں نے تم کو سنوارا بہار نے
اجتبیٰ رضوی

پتلیاں تک بھی تو پھر جاتی ہیں دیکھو دم نزع
وقت پڑتا ہے تو سب آنکھ چرا جاتے ہیں
امیر مینائی

خزاں کا بھیس بنا کر بہار نے مارا
مجھے دورنگئ لیل و نہار نے مارا
آرزو لکھنوی

مری بہار میں عالم خزاں کا رہتا ہے
ہوا جو وصل تو کھٹکا رہا جدائی کا
جلیل مانک پوری

اے خزاں بھاگ جا چمن سے شتاب
ورنہ فوج بہار آوے ہے
شیخ ظہور الدین حاتم

پت جھڑ کے اداس موسم پر بہترین بہترین اشعار

جو تھی بہار تو گاتے رہے بہار کا راگ
خزاں جو آئی تو ہم ہو گئے خزاں کی طرف
جلیل مانک پوری

عجب بہار دکھائی لہو کے چھینٹوں نے
خزاں کا رنگ بھی رنگ بہار جیسا تھا
جنید حزیں لاری

خزاں جب تک چلی جاتی نہیں ہے
چمن والوں کو نیند آتی نہیں ہے
بسمل عظیم آبادی

گلوں کا دور ہے بلبل مزے بہار میں لوٹ
خزاں مچائے گی آتے ہی اس دیار میں لوٹ
حبیب موسوی

آمد آمد ہے خزاں کی جانے والی ہے بہار
روتے ہیں گل زار کے در باغباں کھولے ہوئے
تعشق لکھنوی

سوکھے پتوں کا بکھرنا: دلچسپ شعر

کیا خبر مجھ کو خزاں کیا چیز ہے کیسی بہار
آنکھیں کھولیں آ کے میں نے خانۂ صیاد میں
منشی امیر اللہ تسلیم

رعنائی بہار پہ تھے سب فریفتہ
افسوس کوئی محرم راز خزاں نہ تھا
حبیب احمد صدیقی

خزاں کا زہر سارے شہر کی رگ رگ میں اترا ہے
گلی کوچوں میں اب تو زرد چہرے دیکھنے ہوں گے
امداد ہمدانی

آئیں گے وقت خزاں چھوڑ دے آئی ہے بہار
لے لے صیاد قسم رکھ دے گلستاں سر پر
خواجہ محمد وزیر

خزاں کی رُت اور اردو شاعری کا تعلق

خزاں کے موسم میں خشک پتوں کا جھڑنا ایک قدرتی عمل ہے، لیکن یہ انسان کو اداس بھی کر دیتا ہے۔ اس موسم میں زرد پتوں کا نظارہ بھی بہت دلکش ہوتا ہے۔ اردو شعراء نے خشک پتوں اور زرد پتوں پر بھی بہت عمدہ اشعار کہے ہیں۔ زرد پتوں کا موسم بعض لوگوں کے لیے غم اور اداسی کا موسم بھی ہوتا ہے۔ اس موسم میں محبت بھری شاعری بھی ایک خاص اثر رکھتی ہے۔ اردو شعراء نے خزاں کے موسم پر محبت بھری شاعری بھی کی ہے۔

پت جھڑ کی رُت اداسی کی رُت بھی کہی جاتی ہے۔ اس موسم میں انسان کو اپنی زندگی کی عارضی اور فنا ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ اردو شعراء نے خزاں کی رُت پر اداس شاعری بھی کی ہے۔ خزاں کے موسم پر اردو شاعری میں بہت تنوع پایا جاتا ہے۔ بعض شعراء نے اس موسم کی خوبصورتی کو بیان کیا ہے، جبکہ بعض نے اس کی اداسی اور غم پر توجہ دی ہے۔ اس موسم پر محبت بھری شاعری بھی ایک خاص اثر رکھتی ہے۔

اردو شاعری میں پتوں کے گرنے کے موسم کی بہت سی علامتیں اور استعارے استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثلاً، زرد پتے زندگی کی عارضی اور فنا ہونے کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح، خشک پتے غم اور اداسی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔