مے خانے / شراب خانے پر شعر و شاعری : جام نوشی پر عمدہ دو لائن اشعار

مئے خانہ پر شاعری

مے خانے یا شراب خانے کا موضوع ادبی دنیا میں قدیم و جدید شاعرانہ ادا کی مدد سے کئی مختلف رنگوں اور حسوں کو ظاہر کرتا ہے۔ ہندوستانی اور پاکستانی ادب کی دنیا میں، مے خانوں کی شان و شوکت کا باقاعدہ ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں، شاعرانہ اداوں میں جام کی اہمیت کو بیان کرنے والے شاعران کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ شاعرانہ اشعار میں جام کی ترتیبات، اس کی زیبائش اور اس کے پیچیدہ حالات کی تصویر کشی کی جاتی ہے۔

مے خانے پر عمدہ اشعار

تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتا
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے
غلام محمد قاصر

مے خانے کی سمت نہ دیکھو
جانے کون نظر آ جائے
حفیظ میرٹھی

دور سے آئے تھے ساقی سن کے مے خانے کو ہم
بس ترستے ہی چلے افسوس پیمانے کو ہم
نظیر اکبرآبادی

ایک ایسی بھی تجلی آج مے خانے میں ہے
لطف پینے میں نہیں ہے بلکہ کھو جانے میں ہے
اصغر گونڈوی

تجھ کو مسجد ہے مجھ کو مے خانہ
واعظا اپنی اپنی قسمت ہے
میر تقی میر

مے خانے میں مزار ہمارا اگر بنا
دنیا یہی کہے گی کہ جنت میں گھر بنا
ریاضؔ خیرآبادی

مے کدے اور شراب پر دو لائن شاعری

کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
مرزا غالب

پیمانہ کہے ہے کوئی مے خانہ کہے ہے
دنیا تری آنکھوں کو بھی کیا کیا نہ کہے ہے
نامعلوم

غم وہ مے خانہ کمی جس میں نہیں
دل وہ پیمانہ ہے بھرتا ہی نہیں
نامعلوم

اب تو اتنی بھی میسر نہیں مے خانے میں
جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں
دواکر راہی

آئے تھے ہنستے کھیلتے مے خانے میں فراقؔ
جب پی چکے شراب تو سنجیدہ ہو گئے
فراق گورکھپوری

شراب خانے اور شرابی انسان پر شعر

مشہور ہندوستانی شاعر میر تقی میر کی کتاب “دیوانِ میر” اور “دیوانِ غالب” میں مے خانوں کے مضامین پر بہترین مثالیں پائی جاتی ہیں۔ ان کی اشعار میں مے خانوں کی محفلوں کا رنگ و بو، ان کی جام نوشی کی تصویریں، اور جام کی بہاروں کا ذکر کیا گیا ہے۔ شرابی انسان کی بات کی جائے تو مرزا غالب سے لے کر مومن خان مومن اور علامہ اقبال تک یہ سب مشہور شعراء شراب نوشی کے شائق تھے۔ یہی نہیں بلکہ بہادر شاہ ظفر، محسن نقوی، فرحت عباس شاہ جیسے عمدہ شعراء بھی نشے کی لت کا شکار رہے۔ دیوانِ میر میں ان کی شاعری کا رنگ مختلف شعروں میں جام کی محفلوں کی تصاویر کو دل کو چھو لینے والی اہمیت دیتی ہے۔

دوسری طرف، پاکستانی شاعر فیض احمد فیض کی کتاب “نشتر شاعری” میں بھی مے خانوں کے مناظر بہترین ادائیگی سے پیش کیے گئے ہیں۔ ان کی شاعری میں مے خانوں کے ماحول کی حقیقتیت اور ان کی بے قراری کو شاعرانہ اسلوب میں اظہار دیا گیا ہے۔ نشتر شاعری کی یہ کتاب ادبی دنیا میں ایک معتبر مرجع ہے جو شراب کی دنیا کو شاعری کی روشنی میں پیش کرتی ہے۔

جام اور بوتل پر غزل

جام اور بوتل کی اردو شاعری میں وہی اہمیت ہے جو کہ اسے ایک بنیاد کا درجہ دیتی ہے۔ شعراء اکثر شرابی ہوتے ہیں۔ شراب نوشی سے ان پر شعری آمد کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری میں شراب نوشی کو بہت عمدہ اور مثبت چیز کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے جبکہ درحقیقیت ایسا نہیں ہے۔ مے خانوں کی شاعرانہ دنیا میں اہمیت اور جلوہ ایک بے مثال ہوتی ہے جو ہمیشہ ادبی دنیا کی مختلف مشہور کتبوں میں بیان شدہ ہے۔ ان میں “شراب نامہ”، “دیوانِ غالب”، “کلیاتِ میر”، اور “نشتر شاعری” شامل ہیں جو شراب کی دنیا کو مختلف زاویوں سے پیش کرتی ہیں۔ ان کتبوں میں شراب خانوں کے مناظر، جام کی نوشت، اور مے خانوں کی محفلوں کا رنگ اور بو، ایک خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

مے خانے کی دنیا ادبی دنیا میں ایک مخصوص جائے کو حاصل ہے جو شاعرانہ اداوں اور اشعار کی مدد سے انسانی جذبات کو بیان کرتی ہے۔ شراب خانوں کے مناظر اور جام کی نوشت ادبی دنیا کی ایک اہم حصہ رہے ہیں جو مشاہیر شاعران کی کتابوں میں عموماً موجود ہوتے ہیں۔