خواتین کے زیورات ان کی شخصیت کی عکاس ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک بہت پسندیدہ زیورات کانچ کی چوڑی ہے، جو ان کی خوبصورتی کو اور بڑھا دیتی ہے۔ اس کانچ کی چوڑی کی بے نظیری پر ہندوستانی اور پاکستانی شاعروں نے بھی اپنے شعروں میں اظہار کیا ہے۔ معروف شاعر غالب نے اپنی شاعری میں عورتوں کے زیورات کو ایک خاص مقام دیا۔ ان کی مشہوریت کی کتابوں میں “دیوانِ غالب” اور “حصہ غالب” شامل ہیں۔ اسی طرح، علامہ اقبال نے بھی اپنی شاعری میں عورتوں کے زیورات کو اہمیت دی ہے۔ ان کی معروفی کی کتابیں “بال جبریل” اور “زبورِ عجم” ہیں۔
کانچ کی چوڑی پر دو لائن اشعار
لال چوڑیاں لگتی ہیں تیرے گورے بازو پہ ایسے!
جیسے چاند پہ رکھ دئیے ہوں کچھ پھول گلاب کے
کاجل اداس ہے تو ہیں بے کل سی چوڑیاں
تم کو بلا رہی ہیں یہ چنچل سی چوڑیاں
ساون کی مجھ کو پیاس ہے پیاسی ہوں مثل ریت
تجھ پر برس رہی ہیں یہ بادل سی چوڑیاں
کرتی ہیں خوب شور نہ سونے یہ مجھ کو دیں
دیوانی ہو گئی ہیں یہ پاگل سی چوڑیاں
دیکھو کھنک رہی ہیں یہ خاموشیوں میں بھی
آنکھوں میں سج رہی ہیں یہ جل تھل سی چوڑیاں
پل پل یہ چھو رہی ہیں مرا جسم اور بدن
کرتی ہیں مجھ کو تنگ یہ سانول سی چوڑیاں
اے شاہ دل سہاگ نشانی ہماری ہیں
پیاری ہیں مجھ کو جان سے پرپل سی چوڑیاں
خوشبو مرے بدن کی چراتی ہیں روز و شب
دیکھو دعاؔ کمال ہیں صندل سی چوڑیاں
شاعرہ : دعا علی
کنگن پر بہترین شعر
میں ظفرؔ تا زندگی بکتا رہا پردیس میں
اپنی گھر والی کو اک کنگن دلانے کے لیے
ظفر گورکھپوری
نہ تو نے پہنے جو اپنے ہاتھوں میں میری ان انگلیوں کے کنگن
تو سوچ لے کتنی سونی سونی تری کلائی پڑی رہے گی
عامر امیر
نور کا تن ہے نور کے کپڑے اس پر کیا زیور کی چمک ہے
چھلے کنگن اکے جوشن ماشاء اللہ ماشاء اللہ
امیر مینائی
یہ باتوں باتوں میں مجھ کو بتا گئے تنویرؔ
کل اس کے ہاتھ کا کنگن گھما رہا تھا میں
محسن آفتاب کیلاپوری
جانے کس کے دھیان میں ڈوبا تھا خواب
نیند نے کنگن تو کھنکائے بہت
بکل دیو
شیشے کی چوڑیوں پر عمدہ شاعری
ابھی تلک تو نہ کندن ہوئے نہ راکھ ہوئے
ہم اپنی آگ میں ہر روز جل کے دیکھتے ہیں
احمد فراز
کانچ کی چوڑی لے کر میں جب تک لوٹا
اس کے ہاتھوں میں سونے کا کنگن تھا
شارق کیفی
بندیا، چوڑی، گجرا، کنگن ایک طرف
سب پر بھاری کاجل دھاری آنکھوں میں
جیم جاذل
اے صحن چمن کے زندانی کر جشن طرب کی تیاری
بجتے ہیں بہاروں کے کنگن زنجیر کی یہ آواز نہیں
قتیل شفائی
جو ساز ستم ہر طرف بج رہا ہے
وہ پائل ہے چوڑی ہے کنگن ہے کیا ہے
اخلاق احمد آہن
سجتے ہیں اس شوخ بدن پر سارے رنگ
ہر کنگن اس ہاتھ میں اچھا لگتا ہے
قمر آسی
پہلے تو آغاز سفر کر پھر تاروں کی دوکانوں سے
بالی بندے جھمکے پائل لے دوں گا میں کنگن بھی
وجے شرما
خواتین کے زیورات پر غزل
جواں ستاروں کو گردش سکھا رہا تھا میں
کل اس کے ہاتھ کا کنگن گھما رہا تھا میں
تنویر غازی
میں نے اوڑھا رنگ سیاہ فقط
دئے کنگن چوڑی توڑ سجن
کنول ملک
مثل شاخ گل لچکتی ہے کلائی بار بار
گجرے پھولوں کے ہیں یا کنگن تمہارے ہاتھ میں
سید یوسف علی خاں ناظم
تیرے روپ کے آگے پھیکے چاند ستارے بھی
بالی والی کنگن ونگن زیور ویور کیا
قمر صدیقی
ریشمی چوڑیاں ایسی کہ غزل کے مصرعے
یہ کھنکتا ہوا کنگن بھی غزل جیسا ہے
قیصر صدیقی
ایسے کچھ ہاتھ بھی ہوتے ہیں کہ جن کے کنگن
توڑنے والے کے احساس میں گڑ جاتے ہیں
رفیعہ شبنم عابدی
پائے جنوں میں پڑی ہوئی ہیں حرص و ہوا کی زنجیریں
قید ہے اب تک ہاتھ سحر کا تاریکی کے کنگن میں
علی سردار جعفری
اس کے کنگن سے محبت کی کھنک آتی ہے
زرد رو راتوں میں چندن کی مہک آتی ہے
انبج شریواستو
عورتوں کے زیور پر غزل اور نظم
زیورات کے موضوع پر شاعری میں مختلف احساسات کا اظہار کیا گیا ہے۔ عورتوں کے زیوارت کو تو اردو شاعری میں بنیادی حیثیت دی گئی ہے۔ شاعری کے ذریعے زیورات کی خوبصورتی، ان کی اہمیت اور ان کے حملے ہوتے ہیں۔ شاعری کی مشہور کتابوں میں، عشق، حسرت، اور فراق کے موضوعات پر شاعری ملتی ہے، جو کانچ کی چوڑی کے ذریعے بھی اظہار پاتی ہیں۔ زیورات کی بھی حکایتیں ہوتی ہیں، جیسے ہر ایک زیور ایک کہانی سناتا ہے۔ زیورات کی تاریخ بھی بہت دلچسپ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، مقامی زیورات کی تراجم میں ان کی تاریخ اور ان کے طرزِ عمل کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح، دنیا بھر کے مختلف معاشروں میں زیورات کی روایتی اہمیت کو بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
آخری الفاظ
زیورات کی دنیا میں اعداد و شمار بھی اہم ہوتے ہیں۔ ان کی قیمت، ان کی مصنوعات، اور ان کے استعمال کے مواقع پر تجزیہ کیا جاتا ہے۔ ان کی تجارت، ان کی فنونِ ترکیب، اور ان کی ترقی کے اعداد و شمار بھی محاسبہ کیے جاتے ہیں۔ کانچ کی چوڑی اور دیگر زیورات پر شاعرانہ اشعار اور شاعری میں ان کی معانی کو بہتر اجاگر کیا جاتا ہے۔ ان کی خوبصورتی، ان کی اہمیت، اور ان کے حملے ایک موضوعہ طرزِ زندگی ہیں، جو شاعری کے ذریعے اظہار پاتے ہیں۔