معشوق کا فراق اور اس سے جدائی عاشق کیلئے تقریبا ایک مستقل کیفیت ہے ۔ وہ عشق میں ایک ایسے ہجر کو گزار رہا ہوتا ہے جس کا کوئی انجام نہیں ہوتا ۔ یہ تصور اردو کی کلاسیکی شاعری کا بہت بنیادی تصور ہے ۔ شاعروں نے ہجر وفراق کی اس کہانی کو بہت طول دیا ہے اور نئے نئے مضامین پیدا کئے ہیں ۔ جدائی کے لمحات ہم سب کے اپنے گزارے ہوئے اور جئے ہوئے لمحات ہیں اس لئے ان شعروں میں ہم خود اپنی تلاش کرسکتے ہیں ۔
جدائی پر دکھی شاعری
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
احمد فراز
ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی
احمد فراز
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ
احمد فراز
آپ کے بعد ہر گھڑی ہم نے
آپ کے ساتھ ہی گزاری ہے
گلزار
اب جدائی کے سفر کو مرے آسان کرو
تم مجھے خواب میں آ کر نہ پریشان کرو
منور رانا
تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں
جان بہت شرمندہ ہیں
افتخار عارف
اس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا
اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا
احمد فراز
ملنا تھا اتفاق بچھڑنا نصیب تھا
وہ اتنی دور ہو گیا جتنا قریب تھا
انجم رہبر
آئی ہوگی کسی کو ہجر میں موت
مجھ کو تو نیند بھی نہیں آتی
اکبر الہ آبادی
وہ آ رہے ہیں وہ آتے ہیں آ رہے ہوں گے
شب فراق یہ کہہ کر گزار دی ہم نے
فیض احمد فیض
دوری پہ بہترین شاعری
اردو شاعری میں جدائی ،ہجر دوری کا موضوع ہمیشہ سے ایک اہم موضوع رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ محبت اور جدائی ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ محبت میں مبتلا ہونے والے شخص کو ہمیشہ اس بات کا خوف رہتا ہے کہ کہیں اس کا محبوب اس سے جدا نہ ہو جائے۔ اور جب ایسا ہوتا ہے تو عاشق کو شدید دکھ اور اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہندوستانی اور پاکستانی دونوں ممالک کے شاعروں نے جدائی کے موضوع پر بے شمار اشعار کہے ہیں
بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے
اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے
عرفان صدیقی
کتنی لمبی خاموشی سے گزرا ہوں
ان سے کتنا کچھ کہنے کی کوشش کی
گلزار
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
جون ایلیا
جس کی آنکھوں میں کٹی تھیں صدیاں
اس نے صدیوں کی جدائی دی ہے
گلزار
اس کو رخصت تو کیا تھا مجھے معلوم نہ تھا
سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا
ندا فاضلی
کچھ خبر ہے تجھے او چین سے سونے والے
رات بھر کون تری یاد میں بیدار رہا
ہجر ناظم علی خان
جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا
ناصر کاظمی
یوں لگے دوست ترا مجھ سے خفا ہو جانا
جس طرح پھول سے خوشبو کا جدا ہو جانا
قتیل شفائی
آ کہ تجھ بن اس طرح اے دوست گھبراتا ہوں میں
جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں
جگر مراد آبادی
اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی
آج پہلی بار اس سے میں نے بے وفائی کی
احمد فراز
ہجر پہ بہترین اشعار
وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حسن آخر تھا
کہ چپ سی لگ گئی دونوں کو بات کرتے ہوئے
راجیندر منچندا بانی
تھی وصل میں بھی فکر جدائی تمام شب
وہ آئے تو بھی نیند نہ آئی تمام شب
مومن خاں مومن
جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو
یہ داغ وہ ہے کہ دشمن کو بھی نصیب نہ ہو
نظیر اکبرآبادی
مجھ سے بچھڑ کے تو بھی تو روئے گا عمر بھر
یہ سوچ لے کہ میں بھی تری خواہشوں میں ہوں
احمد فراز
یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں
خدا کسی کو کسی سے مگر جدا نہ کرے
قتیل شفائی
تو کیا سچ مچ جدائی مجھ سے کر لی
تو خود اپنے کو آدھا کر لیا کیا
جون ایلیا
وصل میں رنگ اڑ گیا میرا
کیا جدائی کو منہ دکھاؤں گا
میر تقی میر
محسوس ہو رہا ہے کہ میں خود سفر میں ہوں
جس دن سے ریل پر میں تجھے چھوڑنے گیا
کیف احمد صدیقی
محبوب سے جدائی کے کئی وجوہات ہو سکتے ہیں، کچھ عام وجوہات درج ذیل ہیں:
شخصیت اور اقدار میں فرق: اگر دونوں لوگوں کی شخصیتیں اور اقدار میں بہت زیادہ فرق ہو تو تعلقات میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور جدائی کا باعث بن سکتی ہیں۔
اہداف اور خواہشات میں فرق: اگر دونوں لوگوں کے زندگی کے اہداف اور خواہشات مختلف ہوں تو تعلقات میں تناؤ پیدا ہو سکتا ہے اور جدائی کا باعث بن سکتا ہے۔
مذاہب اور ثقافتوں میں فرق: مذاہب اور ثقافتوں میں فرق بھی تعلقات میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے اور جدائی کا باعث بن سکتا ہے
غلط فہمیاں اور تنازعات:
غلط فہمیاں اور غلط مواصلات: اگر دونوں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کھل کر اور ایمانداری سے بات چیت نہ کریں تو غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں اور تعلقات میں تناؤ پیدا ہو سکتا ہے۔بار بار جھگڑے اور تنازعات: اگر دونوں لوگوں کے درمیان بار بار جھگڑے اور تنازعات ہوتے رہیں تو تعلقات میں دراڑ پیدا ہو سکتی ہے اور جدائی کا باعث بن سکتے ہیں۔
خارجی عوامل
دوری اور فاصلہ: اگر دونوں لوگ ایک دوسرے سے دور رہتے ہوں تو تعلقات میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور جدائی کا باعث بن سکتی ہیں۔
خاندانی اور سماجی دباؤ: خاندان اور معاشرے کی طرف سے دباؤ بھی تعلقات میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے اور جدائی کا باعث بن سکتا ہے۔
معاشی مسائل: معاشی مسائل بھی تعلقات میں تناؤ پیدا کر سکتے ہیں اور جدائی کا باعث بن سکتے ہیں۔
ذاتی مسائل
- نااہلیت اور عدم دلچسپی: اگر کسی ایک شخص میں رشتے کو نبھانے کی صلاحیت یا دلچسپی نہ ہو تو جدائی ہو سکتی ہے۔
- بے وفائی اور دھوکہ دہی: بے وفائی اور دھوکہ دہی تعلقات کو تباہ کر سکتی ہے اور جدائی کا باعث بن سکتی ہے۔
- موت یا بیماری: موت یا بیماری بھی تعلقات کو ختم کر سکتی ہے اور جدائی کا باعث بن سکتی ہے۔
- یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ہر رشتے کی اپنی کہانی ہوتی ہے اور جدائی کے وجوہات بھی مختلف ہو سکتے ہیں۔
کیا آپ کے ذہن میں کوئی خاص صورتحال ہے جس کے بارے میں آپ جاننا چاہتے ہیں؟