الوداع پر شاعری : خدا حافظ پر عمدہ اشعار – دو لائن الوداعی شعر

الوداعی شاعری

کسی کو رخصت کرتے ہوئےہم جن کیفیتوں سے گزرتے ہیں انہیں محسوس تو کیا جاسکتا ہے لیکن ان کا اظہار اور انہیں زبان دینا ایک مشکل امر ہے، صرف ایک تخلیقی اظہار ہی ان کیفیتوں کی لفظی تجسیم کا متحمل ہوسکتا ہے ۔ ’’الوداع‘‘ کے لفظ کے تحت ہم نے جو اشعار جمع کئے ہیں وہ الوداعی کیفیات کے انہیں نامعلوم علاقوں کی سیر ہیں۔ اس کے علاوہ الوداع کے موضوع پر درج ِ ذیل میں عمدہ اشعار کا انتخاب شیئر کیا گیا ہے۔

الوداع پر دو لائن الوداعی شاعری

اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں
جون ایلیا

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
میر تقی میر

آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا
عبید اللہ علیم

جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی
دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی
شکیل بدایونی

جاتے ہو خدا حافظ ہاں اتنی گزارش ہے
جب یاد ہم آ جائیں ملنے کی دعا کرنا
جلیل مانک پوری

اس کو رخصت تو کیا تھا مجھے معلوم نہ تھا
سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا
ندا فاضلی

خدا حافظ پر عمدہ اشعار

تمہیں ضرور کوئی چاہتوں سے دیکھے گا
مگر وہ آنکھیں ہماری کہاں سے لائے گا
بشیر بدر

اگر تلاش کروں کوئی مل ہی جائے گا
مگر تمہاری طرح کون مجھ کو چاہے گا
بشیر بدر

چھوڑنے میں نہیں جاتا اسے دروازے تک
لوٹ آتا ہوں کہ اب کون اسے جاتا دیکھے
شہزاد احمد

یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے
تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتا تھا کاجل
ناصر کاظمی

اب تم کبھی نہ آؤ گے یعنی کبھی کبھی
رخصت کرو مجھے کوئی وعدہ کیے بغیر
جون ایلیا

عجیب ہوتے ہیں آداب رخصت محفل
کہ وہ بھی اٹھ کے گیا جس کا گھر نہ تھا کوئی
سحر انصاری

اللہ حافظ کے متعلق خوبصورت غزل

تم سنو یا نہ سنو ہاتھ بڑھاؤ نہ بڑھاؤ
ڈوبتے ڈوبتے اک بار پکاریں گے تمہیں
عرفان صدیقی

تمہارے ساتھ یہ موسم فرشتوں جیسا ہے
تمہارے بعد یہ موسم بہت ستائے گا
بشیر بدر

ریل دیکھی ہے کبھی سینے پہ چلنے والی
یاد تو ہوں گے تجھے ہاتھ ہلاتے ہوئے ہم
نعمان شوق

یہ ایک پیڑ ہے آ اس سے مل کے رو لیں ہم
یہاں سے تیرے مرے راستے بدلتے ہیں
بشیر بدر

اس سے ملنے کی خوشی بعد میں دکھ دیتی ہے
جشن کے بعد کا سناٹا بہت کھلتا ہے
معین شاداب

گونجتے رہتے ہیں الفاظ مرے کانوں میں
تو تو آرام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ
نامعلوم

اس سے ملے زمانہ ہوا لیکن آج بھی
دل سے دعا نکلتی ہے خوش ہو جہاں بھی ہو
محمد علوی

رخصت ہونے کے وقت رخصتی والی شاعری

اسے جانے کی جلدی تھی سو میں آنکھوں ہی آنکھوں میں
جہاں تک چھوڑ سکتا تھا وہاں تک چھوڑ آیا ہوں
نامعلوم

کلیجہ رہ گیا اس وقت پھٹ کر
کہا جب الوداع اس نے پلٹ کر
پون کمار

میں جانتا ہوں مرے بعد خوب روئے گا
روانہ کر تو رہا ہے وہ ہنستے ہنستے مجھے
امین شیخ

تم اسی موڑ پر ہمیں ملنا
لوٹ کر ہم ضرور آئیں گے
نظر ایٹوی

اب کے جاتے ہوئے اس طرح کیا اس نے سلام
ڈوبنے والا کوئی ہاتھ اٹھائے جیسے
نامعلوم

تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے
پروین شاکر

دکھ کے سفر پہ دل کو روانہ تو کر دیا
اب ساری عمر ہاتھ ہلاتے رہیں گے ہم
احمد مشتاق

جانے والے کو کہاں روک سکا ہے کوئی
تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں
اسلم انصاری

ہم نے مانا اک نہ اک دن لوٹ کے تو آ جائے گا
لیکن تجھ بن عمر جو گزری کون اسے لوٹائے گا
اختر سعید خان

وقت رخصت الوداع کا لفظ کہنے کے لیے
وہ ترے سوکھے لبوں کا تھرتھرانا یاد ہے
نامعلوم

الوداع کے موضوع پر نظم کا رجحان

الوداع کا موضوع شاعروں کے لیے ہمیشہ سے ہی دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے کئی مشہور شاعروں نے اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ مشہور ہندوستانی شاعروں میں میر تقی میر، مرزا غالب، اقبال اور فیض احمد فیض شامل ہیں۔ ان شاعروں نے الوداع کے موضوع کو مختلف زاویوں سے دیکھا ہے۔ میر تقی میر نے اپنے شعر میں الوداع کے غم اور درد کو بیان کیا ہے۔ مرزا غالب نے الوداع کو زندگی کا ایک ناگزیر حصہ قرار دیا ہے۔ اقبال نے الوداع کو ایک نئی شروعات کے طور پر دیکھا ہے۔ اور فیض احمد فیض نے الوداع میں امید کا پیغام دیا ہے۔

مشہور پاکستانی شاعروں میں احمد فراز، حفیظ جالندھری، ناصر کاظمی اور منیر نیازی شامل ہیں۔ ان شاعروں نے الوداع کے موضوع کو اپنے مخصوص انداز میں پیش کیا ہے۔ احمد فراز نے الوداع میں محبت کے درد کو بیان کیا ہے۔ حفیظ جالندھری نے الوداع کو وطن سے محبت کا اظہار قرار دیا ہے۔ ناصر کاظمی نے الوداع میں زندگی کی بے ثباتی کو بیان کیا ہے۔ اور منیر نیازی نے الوداع میں زندگی کی حقیقتوں کو بیان کیا ہے۔ مشہور شاعری کی کتابوں میں میر تقی میر کا “کلیات میر”، مرزا غالب کا “دیوان غالب”، اقبال کا “ارمغان حجاز”، فیض احمد فیض کا “دست صبا”، احمد فراز کا “نایاب”، حفیظ جالندھری کا “شہر یاراں”، ناصر کاظمی کا “دیوان ناصر” اور منیر نیازی کا “ٹوٹے ہوئے خواب” شامل ہیں۔ ان کتابوں میں الوداع کے موضوع پر بہت خوبصورت شاعری موجود ہے۔

اختتامی الفاظ

الوداع کا موضوع شاعروں کے لیے ایک ایسا موضوع ہے جس پر وہ اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ یہ موضوع شاعروں کے لیے ایک چیلنج بھی ہے کیونکہ اسے ایک ایسے انداز میں پیش کرنا ہوتا ہے جو قارئین کے دلوں کو چھو جائے۔