دنیا میں آنے والا ہر نیا فرد اپنی کھلی آنکھوں سے وقتاً فوقتاً خودغرضی اور مفادپرستی کے مظاہر دیکھتا رہتا ہے۔ ہر دور کا انسان اپنے مفادات کی خاطر اپنے ہی ہم جنسوں کو نقصان پہنچاتا نظر آتا ہے۔ انسان کی اکثریت مفادپرستی اور خودغرضی کی بھٹی میں اس قدر پک چکی ہے کہ یہ عیوب اس کی فطرت کا جزو دکھائی دیتے ہیں۔ یہ مفاد پرستی اور خودغرضی ہی انسان کو دھوکا دہی، چوری چکاری، ڈاکا زنی، قتل و غارت گری اور دیگر جرائم پر اکساتی و ابھارتی ہے اور دنیا کا سکون چھین کر اسے بے سکونی کا تاج پہناتی ہے۔
خود غرضی پر خوبصورت شاعری
کسے خبر تھی کہ یہ دور خود غرض اک دن
جنوں سے قیمت دار و رسن چھپائے گا
احسان دانش
غالب بے خودی بے سبب نہیں
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
مرزا غالب
یوں اہل ِ طلب میں تھے مفادات کے سو رنگ
سو رنگ کی اک بات تو اک بات کے سو رنگ
وہ جو نہ آنے والا ہے نہ اس سے مجھ کو مطلب تھا
آنے والوں سے کیا مطلب ،آتے ہیں ،آتے ہونگے
لوگ، یہ اپنے مفادات کے مارے ہوئے لوگ
دل تو رکھ سکتے ہیں دلدار نہیں ہو سکتے
منیر انور
خود غرض انسان پر دو لائن کا شعر
چھوٹے چھوٹے کئی بے فیض مفادات کے ساتھ
لوگ زندہ ہیں عجب صورت حالات کے ساتھ
اعتبار ساجد
مجھ سے مخلص نہ واقف میرے جذبات سے تھا
اس کا رشتہ تو فقط اپنے مفادات سے تھا
اب جو بچھڑا ہے تو کیا روئیں جدائی پر
یہ اندیشہ تو ہمیں پہلی ملاقات سے تھا
مٹی کی مورتوں کا ہے میلہ لگا ہوا
آنکھیں تلاش کرتی ہیں انسان کبھی کبھی
یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں صرف مفاد پرستی اور خود غرضی ہی بستی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ دنیا سے مخلص، دوسروں کے کام آنے والے اور دوسروں کی مدد کرنے والے انسان بالکل معدوم ہوچکے ہیں۔
خود غرضی کا فلسفہ ہمیشہ نقصان دہ ہی ثابت ہوتا ہے ۔آپ دوسروں کو کچل کر لامیابی کے آخری زینے تک پہنچ بھی سکتے ہیں ۔مگر وہاں آپ اکیلے ہوں گے ۔ چوہوں کی دوڑ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جیت کر بھی چوہے ہی رہتے ہیں ۔
مطلبی دوست پر اشعار
ہر سمت دیکھتا ہوں لگاتار مطلبی
اس پار مطلبی میاں اس پار مطلبی
منان قدیر منان
کس پر یقین کیجیئے یہ دور مطلبی ہے
لگتا ہے خوں کے بھی رشتے بدل گئے ہیں
اختر آزاد
مجھے غزض ہے مری جان غل مچانے سے
نہ تیرے آنے سے مطلب نہ تیرے جانے سے
جون ایلیا
ہو چکا قطع تعلق تو جفائیں کیوں ہوں
جن کو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتے بھی نہیں
داغ دہلوی
تو بولوں میں بھی ، ڈھنگ کی بات کہے کوئی
کسی مطلب سے الگ بیٹھا ہوں ، مطلبی ہوں
پیر نصیرالدین شاہ نصیر
کتنے چہرے بدل رہی دنیا
خوب شاطر ہے مطلبی دنیا
شاد صدیقی
میں تو سمجھا سب سے بڑھ کر مطلبی تھا میں یہاں
خود پہ تہمت دھر چکا تھا ،دھر چکا تو تم ملے
اورنگ زیب
اردو غزل میں مطلب پرستی کا مقام
خود غرضی اور مطلبی دوست پر شعر و شاعری کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے، ہمیں ہندوستان اور پاکستان کے ان مشہور شاعران کا ذکر کرنا نہیں بھولنا چاہئے جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اس موضوع پر روشنی ڈالی۔
پاکستانی شاعر فیض احمد فیض کی کتاب “نقش و نکتہ” اور ان کی نظموں میں خود غرضی اور مطلبی دوست کے موضوعات پر عمیق غور کیا گیا ہے۔ ان کی مشہور شاعری میں انسانی خود غرضی اور اُس کے مطلبی دوست پر شاعری کے اظہارات موجود ہیں۔ فیض احمد فیض کے 1930ء سے لیکر 1984ء تک کے شاعری کی تاریخ کی اہم معلومات ان کی کتابوں میں دستیاب ہیں۔
دوسری جانب، ہندوستانی شاعر جلال الدین رومی کی شاعری میں بھی یہ موضوعات بہت محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی معروف کتاب “مثنوی مولانا روم” میں بھی ان کی اہم شاعری پائی جاتی ہے، جو خود غرضی اور مطلبی دوست کے تصورات کو مد نظر رکھتی ہے۔ جلال الدین رومی کی مثنوی مولانا روم کے ترجمہ شدہ اردو نسخوں میں ان کی شاعری کی عظمت اور ان کے فلسفی مفاہیم کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
آخری الفاظ ۔۔۔۔
یہ دونوں شاعران صرف اپنی اشعار کی زبانی بلکہ اپنی کتابوں کی شکل میں بھی ان موضوعات پر غور کیا ہے۔ ان کی کتابوں میں انسانی خود غرضی اور دوست کی محبت کے بارے میں عمیق معلومات موجود ہوتی ہیں۔ فیض احمد فیض کی “سراب نیم کشا” اور جلال الدین رومی کی “مثنوی مولانا روم” مثالیں ہیں جو ان کی اہم کتابیں ہیں۔
بلخصوص، ان مشہور شاعروں نے اپنے اشعار کے ذریعے خود غرضی اور مطلبی دوست کے تعلقات کو اہمیت دی ہے۔ ان کی شاعری کا مقصد انسانیت کی خدمت اور انسانی معاشرت کی بہتری میں مدد کرنا ہے۔